۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
News ID: 398422
26 اپریل 2024 - 10:17
تصاویری از مسجد جامع شُبرغان مرکز ولایت جوزجان افغانستان

حوزہ/اسلام میں مسجد کی بڑی اہمیت اور عظمت ہے، اس لئے کہ یہ اللہ پاک کی بندگی، اس کے ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت کا مقام ہے، جس جگہ اللہ تعالی کو یاد کیا جائے، بندگی کے سجدے ادا کئے جائیں اور اللہ تعالی کو پکارا جائے، اس جگہ سے بڑھ کر اور کون سی جگہ ہوسکتی ہے! جس طرح انسانوں کا نصیب ہوتا ہے اسی طرح زمین کے ٹکڑوں کا بھی نصیب ہوتا ہے، ہر زمین کے ٹکڑے کا مقدر اللہ کا گھر بننا نہیں ہے، اللہ پاک زمین کے جس حصے کو چاہتا ہے اپنا گھر بنانے کیلئے چن لیتا ہے اور وہ زمین کا ٹکڑا عزت، شرف اور عظمت حاصل کرلیتاہے۔

تحریر: مولانا اسد علی دلوانی

حوزہ نیوز ایجنسی |

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا

اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔ سورۂ مبارکۂ جن آیت نمبر 18

قارئین کرام!

اسلام میں مسجد کی بڑی اہمیت اور عظمت ہے، اس لئے کہ یہ اللہ پاک کی بندگی، اس کے ذکر اور قرآن پاک کی تلاوت کا مقام ہے، جس جگہ اللہ تعالی کو یاد کیا جائے، بندگی کے سجدے ادا کئے جائیں اور اللہ تعالی کو پکارا جائے، اس جگہ سے بڑھ کر اور کون سی جگہ ہوسکتی ہے! جس طرح انسانوں کا نصیب ہوتا ہے اسی طرح زمین کے ٹکڑوں کا بھی نصیب ہوتا ہے، ہر زمین کے ٹکڑے کا مقدر اللہ کا گھر بننا نہیں ہے، اللہ پاک زمین کے جس حصے کو چاہتا ہے اپنا گھر بنانے کیلئے چن لیتا ہے اور وہ زمین کا ٹکڑا عزت، شرف اور عظمت حاصل کرلیتاہے، حدیث شریف میں ہے کہ جس طرح تم آسمان کے ستاروں کو چمکتا ودمکتا دیکھتے ہو، آسمان والے زمین پر قائم مسجدوں کو اسی طرح روشن اور منور دیکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے مسجدو ں کی تعمیر کا کام انبیاء علیہم السلام سے لیا۔

مسجد کی طرف قدم بڑھانا بہت بڑی رحمتوں اور برکتوں کا باعث ہے ہے رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله : مَن مَشى إلى مَسجِدٍ يَطلُبُ فيهِ الجَماعَةَ كانَ لَهُ بكُلِّ خُطوَةٍ سَبعونَ ألفَ حَسَنةٍ ، و يُرفَعُ لَهُ مِن الدَّرَجاتِ مِثلُ ذلكَ ، و إن ماتَ و هُو على ذلكَ وكَّلَ اللّه ُ بهِ سَبعينَ ألفَ مَلَكٍ يَعُودُونَهُ في قَبرِهِ ، و يُؤنِسُونَهُ في وَحدَتِهِ ، و يَستَغفِرُونَ لَهُ حتّى يُبعَثَ جو شخص جماعت کے لیے مسجد کی طرف چل کر جاتا جائے اس کے لیے ہر ایک قدم کے عوض ستر ہزار نیکیاں ہیں اور اتنا ہی اس کے درجات بلند کیے جائیں گے۔ اگر وہ اسی حالت میں مر جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے لیے ستر ہزار فرشتے مقرر کردیتا ہے جو قبر میں اس کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، قبر کی تنہائی میں اس کے ساتھ انس و محبت کا اظہار کرتے ہیں اور اس کےلیے استغفار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اس کے قبر سے دوبارہ اٹھائے جانے تک جاری رہے گا(بحار الانوار، ج۷۶، ص۳۳۶)مسجد میں ہر روز جانا بہت فائدوں کا نعمتوں رحمتوں اور برکتوں کا سبب بنتا ہےالإمامُ الحسينُ عليه السلام : قالَ رسولُ اللّه ِ صلى الله عليه و آله : مَن أدمَنَ إلى المَسجِدِ أصابَ الخِصالَ الثَّمانِيَةَ : آيَةً مُحكَمَةً ، أو فَريضَةً مُستَعمَلَةً ، أو سُنَّةً قائمةً ، أو عِلما مُستَطرَفا ، أو أخا مُستَفادا ، أو كَلِمَةً تَدُلُّهُ على هُدىً أو تَرُدُّهُ عن رَدىً ، و تَركَ الذَّنبِ خَشيَةً أو حَياءً حضرت امام حسینؑ: فرمایا کہ حضرت رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں:’’جو پابندی کے ساتھ مسجد میں آمد و رفت رکھتا ہے وہ آٹھ خوبیوں کو پالیتا ہے: ۱:محکم آیت کو۔ ۲:عمل کیے جانے والے فریضے کو۔ ۳:برقرار سنت کو۔ ۴:علم کو جس سے نئی راہیں کھلتی ہیں۔ ۵:بھائی کو جس سے (راہ خدا میں) فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ۶:کسی ایسی بات کو جو اسے ارہ راست کی ہدایت کرتی ہے یا ہلاکت سے بچا لیتی ہے۔ ۷:ترک گناہ کو خدا کے ڈر سے۔ ۸:ترک گناہ کو بندوں کی شرم و حیا سے۔ (بحار الانوار، ج۸۴، ص۳) کائنات میں سب سے پہلی مسجد خانہ کعبہ ہے، دنیا کی آبادی اس مسجد کے بعد شروع ہوئی، روئے زمین پر سب سے پہلا گھر یہی تعمیر ہوا ، جس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہے اور اس مبارک مقام کو برکت اور ہدایت کا مرکز بنادیا گیا ہے، ارشاد ربانی ہے: بے شک، وہ پہلا گھر جسے لوگوں کی عبادت کرنے کے لیے بنایا گیا ،وہ بکہ (مکہ مکرمہ)میں ہے، مبارک ہے اور دونوں جہانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔حضرت ابوذر غفاری سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے عرض کیا کہ کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی ؟ آپؐ نے فرمایا : مسجد حرام ، میں نے عرض کیا پھر ؟ تو فرمایا : مسجد اقصی ۔یہ حقیقت بھی سمجھنے کی ہے کہ مسجد صرف عبادت اور بندگی کیلئے نہیں ہے، یہاں سے انسانیت کو اور مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے سلسلے میں رہنما ہدایات حاصل ہوتی ہیں، مسجد اللہ تعالی کی توحید کے اعلان اور بیان کا مرکز ہے، یہاں سے پکار پکار کر یہ صدا لگائی جاتی ہے کہ اللہ سے بڑا کوئی نہیں ہے اور عبادت کے لائق بس اسی کی ذات ہے، مسجد میں نہ تو کوئی تصویر ہوتی ہے اور نہ نمازیوں کے آگے کوئی مجسمہ، وہ صرف ایک اللہ کے آگے جھکتے ہیں، اور اسی کے آگے جھکنے کو اپنی عزت تصور کرتے ہیں، مسجد سے مساوات کا بھی درس ملتا ہے کہ دنیا کے سب انسان برابر ہیں، کسی کو کسی پر برتری حاصل نہیں ہے ،مسجد کی صفوں میں امیر ترین انسان کے بازو میں غریب اور فقیر کھڑا ہوجاتا ہے، بڑے سے بڑا عالم نماز پڑھ رہا ہو ، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے دائیں بائیں کوئی جاہل نہ کھڑا ہو، مسجد میں آنے کے بعد سارے فرق مٹ جاتے ہیں اور دنیا کو یہ درس ملتا ہے کہ مسجد اسلام کی اس تعلیم کا عملی نمونہ ہے کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کالے کو گورے پر، گور ے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے، اسی طرح مسجد سے طہارت ونظافت، صفائی اور پاکیزگی، انضباط وقت اور مرتب زندگی کا بھی درس ملتا ہے مساجد سے محبت رکھنا ، ان کو آباد رکھنے کی فکر کرنا اور ان میں اعمال خیر انجام دینا مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، مسجدوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے۔

روایت میں ہے کہ اگر مسجد کو آباد نہیں کیا جائے گا تو قیامت کے دن شکایت کرے گی ثلاثةٌ يَشكُونَ إلى اللّه ِ عزّ و جلّ : مَسجِدٌ خَرابٌ لا يُصَلِّي فيه أهلُهُ ، و عالِمٌ بينَ جُهّالٍ ، و مُصحَفٌ مُعَلَّقٌ قد وَقَعَ علَيهِ غُبارٌ لا يُقرَأُ فِيهِ امام جعفر صادقؑ: نے فرمایا کہ تین چیزیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کریں گی: ۱: وہ ویران مسجد جس میں اس کے ہمسائے نماز نہیں پڑھتے۔ ۲:وہ عالم جو جاہلوں میں گھرا ہوا ہوتا ہے (اور وہ اس سے فیض حاصل نہیں کرتے) ۳:وہ قرآن جو لٹکا ہوا ہوتا ہے، جس پر غبار چڑھا ہوا ہوتا ہے اور اس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ (بحار الانوار، ج۸۳، ص۳۸۵) یوں ایک اور حدیث میں ہے کہ لا صَلاةَ لِجارِ المَسجِدِ إلاّ في المَسجدِ، إلاّ أن يكونَ لَهُ عُذرٌ أو بهِ عِلَّةٌ، فقيلَ: و مَن جارُ المَسجدِ يا أميرَ المؤمنينَ ؟ قالَ : مَن سَمِعَ النِّداءَ حضرت علیؑ: نے فرمایا کہ مسجد کے ہمسایہ کی نماز صرف مسجد ہی میں ہوتی ہے جبکہ اسے کوئی عذر بھی در پیش نہ ہو۔ سوال کیا گیا:’’یا امیر المؤمنینؑ! مسجد کا ہمسایہ کون ہوتا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’ جو (اذان کی) آواز کو سنتا ہے‘‘َ (بحار الانوار، ج۸۳، ص۳۷۹)

مسجد کو مسلمانوں کے مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے ، اس کی مرکزیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، نہ اس کی مرکزیت کو ختم کیا جاسکتا ہے،اس مرکزیت کو اگر کوئی ختم کرنا بھی چاہے تو وہ ناکام ونامراد ہی ہوگا اور اس کی مرکزیت کو ختم نہیں کرسکے گا۔ اس کی مرکزیت کی بنیاد پر مساجد کے بنانے کی ترغیب دی گئی، اس کی طرف جانے کی، اس میں بیٹھے رہنے کی ، اس کے ساتھ دلی تعلق کے قائم کرنے کی ، اس کی خدمت وصفائی کی ، اس میں اذان دینے،نماز پڑھنے پڑھانے کی ، اس کے ساتھ دل معلق رہنے کی، اس کی طرف چل کر جانے کی اور اسے آباد رکھنے کی اس قدر روایات ہیں کہ اس کے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ قال الإمامِ الصّادقِ عليه السلام ـ: إذا بَلَغتَ بابَ المَسجِدِ فَاعلَم أنّكَ قَصَدتَ بابَ بيتِ مَلِكٍ عَظيمٍ لا يَطَأُ بِساطَهُ إلاّ المُطَهَّرُونَ ، و لا يُؤذَنُ بمُجالَسَةِ مَجلِسِهِ إلاّ الصِدِّيقُونَ ، و هَبِ القُدومَ إلى بِساطِ خِدمَةِ المَلِكِ فإنّك على خَطَرٍ عظيمٍ إنْ غَفَلتَ هَيبَةَ المَلِكِ ، و اعلَمْ أنّهُ قادِرٌ على ما يَشاءُ مِنَ العَدلِ و الفَضلِ مَعكَ و بِكَ... و اعتَرِفْ بِعَجزِكَ و تَقصِيرِكَ و فَقرِكَ بينَ يدَيهِ ، فإنّكَ قد تَوَجَّهتَ للعِبادَةِ لَهُ ، و المُؤانَسَةِ ، و اعرِضْ أسرارَكَ علَيهِ ، و لْتَعلَمْ أنّهُ لا تَخفى علَيهِ أسرارُ الخَلائقِ أجمَعينَ و عَلانِيَتُهُم ، و كُن كَأفقَرِ عِبادِهِ بينَ يدَيهِ ، و أخْلِ قَلبَكَ عن كُلِّ شاغِلٍ يَحجُبُكَ عن ربِّكَ ، فإنّهُ لا يَقبَلُ إلاّ الأطهَرَ و الأخلَصَ. و انظُرْ مِن أيِّ دِيوانٍ يَخرُجُ اسمُكَ ، فإن ذُقتَ مِن حَلاوَةِ مُناجاتِهِ ، و لَذيذِ مُخاطَباتِهِ و شَرِبتَ بكَأسِ رَحمَتِهِ و كَراماتِهِ مِن حُسنِ إقبالِهِ علَيكَ و إجابَتِهِ ، فَقد صَلُحتَ لِخِدمَتِهِ ، فَادخُلْ فلكَ الأمنُ و الأمانُ ، و إلاّ فَقِفْ وُقُوفَ مُضطَرٍّ قدِ انقَطَعَ عَنهُ الحِيَلُ ، و قَصُرَ عَنهُ الأمَلُ ، و قَضى علَيهِ الأجَلُ ، فإذا عَلِمَ اللّه ُ عزّ و جلّ مِن قَلبِكَ صِدقَ الاِلتِجاءِ إلَيهِ ، نَظَرَ إلَيكَ بعَينِ الرَّحمَةِ و الرَّأفَةِ و العَطفِ و وَفَّقَكَ لِما يُحِبُّ و يَرضى فإنّهُ كريمٌ يُحِبُّ الكَرامَةَ لِعبادِهِ المُضطَرِّينَ إلَيهِ المُحتَرِقِينَ على بابِهِ لِطَلَبِ مَرضاتِهِ ، قالَ اللّه ُ عزّ و جلّ : «أَمَّن يُجِيبُ المُضْطَرَّ إذا دَعاهُ وَ يَكشِفُ السّوء»امام جعفر صادقؑ: نے فرمایا کہ جب مسجد کے دروازے پر پہنچ جاؤ تو یہ بات تمہارے علم میں ہونی چاہیے کہ تم ایسے با عظمت بادشاہ کے دروزے پر پہنچ چکے ہو جس کی بساط (قدرت) پر صرف پاک و پاکیزہ لوگ ہی قدم رکھ سکتے ہیں جس کی مجلس میں صرف صدیقین ہی کو حاضری کی اجازت ملتی ہے، اور سجھ لو کہ تم بادشاہ کی خدمت میں پہنچ چکے ہو اور اگر تم نے بادشاہ کی ہیبت سے غفلت بڑتی تو بہت بڑے خطرہ کا سامنا کرنا پڑیگا۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ہر بات پر قادر ہے، چاہے تو تمہارے ساتھ عدل کرے اور چاہے تو فضل وکرم سے کام لے..... اس کے حضور اپنے عجز کوتاہی اور اپنے فقر و ناتوانی کا اعتراف کرو کیونکہ تم اس کی عبادت اور اس سے مانوس ہونے کے لیے اس کی طرف متوجہ ہو چکے ہو۔ اپنے تمام دلی راز اس کے سامنے پیش کردو، اس بات کو جانے رہو کہ اس پر تمام مخلوقات کے ظاہر و باطن کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ تم اس کے سامنے اپنے آپ کو محتاج ترین بندے کی مانند سمجھو، اپنے دل کو (خدا سے) بے خبر کردینے والی ہر چیز سے خالی کردو جو تمہیں اپنے رب سے چھپا دے، کیونکہ وہ صرف پاکیزہ ترین، خالص ترین (دل کے مالک انسان) سے ہی قبول کرتا ہے۔ یہ بھی دیکھو کہ کس دفتر سے تمہارا نام نکل رہا ہے۔ اگر تم نے اس کی مناجات کی شیرینی اور گفتگو کی لذت کو چکھ لیا، اس کی حسن توجہ اور قبولیت کی وجہ سے اس کی رحمت اور عزت افزائی کے جام کو نوش کرلیا تو سمجھ لو کہ اس کی خدمت کےلائق ہوگئے ہو۔ لہذا اندر چلے جاؤ کہ تمہیں امن و امان کی خوشخبری مل گئی۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہیں پر رک جاؤ ایسے جیسے کوئی مجبور و مضطر انسان ہوتا ہے جس کی تمام تدبیریں ناکام ہوچکی ہیں ، آرزوئیں کوتاہ اور موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کو تمہارے دل کی سچی التجا کا علم ہوجائے تو وہ تمہاری طرف رحم و کرم و مہربانی کی نظر فرمائے گا تمہیں ہر اس بات کی توفیق دے گا جسے وہ خود دوست رکھتا ہے اور راضی ہے کیونکہ وہ کریم ہے اور اپنے مضطر و مجبور بندوں کو عزت عطا کرنا پسند کرتا ہے جو اس کی رضا کے حصول کے لیے اس کے دروازے پر چل رہے ہوتے ہیں (یا بقولے نظریں لگائے ہوتے ہیں) خداوند عزو جل خود فرماتا ہے:’’ امن یجیب المضطر اذا دعاہ و یکشف السوء.... ‘‘ (بھلا کون ہے کہ جب مضطر اسے ے پکارے تو دعا قبول فرماتا ہے۔ نمل:۶۱) (بحار الانوار، ج۸۳، ص۳۷۴) پوری کائنات میں ہم کو کہیں پر بھی ایسا سکون نہیں ملتا ہے جتنا ہمیں مسجد میں ملتا ہے ہر پانچ وقت اللہ اکبر کی صدا سن کر باوضو ہو کر ہم نے معشوق کے دیدار کے لیے جاتے ہیں اور کبھی کبھی تو توفیق خدا وندعالم سے جب تمام مخلوقات خدا نیند میں ہوتی ہے تو اسی مسجد میں ہم جاکر اللہ تعالیٰ سے محو گفتگو ہوتے ہیں مسجد کو چھوڑ کر کہیں اور جانا اصل میں باطل کی پیروی کرنا ہےقال الإمامُ الحسنُ عليه السلام : الغَفلَةُ تَركُكَ المَسجِدَ، و طاعَتُكَ المُفسِدَ امام حسنؑ: غفلت یہ ہے کہ تم مسجد کو ترک کردو اور فساد کاروں کی اطاعت کرنے لگ جاؤ۔ (بحار الانوار، ج۷۸، ص۱۱۵) کوشش کریں کہ مسجد جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا مرکز ہے اسے آباد رکھے اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرائے مسجد میں کام کرنا بہت اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے مَن بَنى مَسجِدا و لَو كَمَفْحَصِ قَطاةٍ بَنَى اللّه ُ لَهُ بَيتا في الجَنَّةِ حضرت رسولِ ؐ خدا: نے فرمایا کہ جو شخص مسجد بنائے گا اگرچہ ’’قطا‘‘ پرندے کو گھونسلے جتنی ہی ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔ (بحار الاانوار، ج۷۷، ص۱۲۱) (بحار الاانوار، ج۸۴، ص۴)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .